بادشاہی کی ہے نہ زر کی تلاش

بادشاہی کی ہے نہ زر کی تلاش

ہے مجھے بس تری نظر کی تلاش


نافیِٔ لا کے بابِ رحمت سے

خالی پلٹی اگر مگر کی تلاش


طوفِ روضہ کی آرزو تن کو

سر کو ہے تیرے سنگ در کی تلاش "


عفو خود ڈھونڈتا ہو جرم جہاں

کیا وہاں کیجے درگزر کی تلاش


عاصیوں کو وہاں وہ ڈھونڈیں گے

بھولے مادر جہاں پسر کی تلاش


جب ہو محبوب کو خبر ساری

تو ہے بے سود نامہ بر کی تلاش


خوشبوئے رہ سے تارے کرتے تھے

اپنے مہکے ہوئے قمر کی تلاش


ہے معظمؔ کو بہرِ مدحِ فصیح

فکرِ نو ، حرفِ معتبر کی تلاش

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

بخشش کا نور لائی ہے صبحِ جمالِ یار

کشتِ خیال خشک ہے ، ابرِ سخا سے جوڑ !

رب نے بخشا جو تِری مدح و ثنا کا اعزاز

ہوجائے گی ہر شوکتِ شاہانہ سبوتاژ

نَسَباً آپ ہیں اَنفَس، اے زَکِیّ و اَنفَس !

جس کو شرف مآب کرے وصفِ پائے خاص

مطلعِ نورِ الٰہی ہے نہارِ عارض

قائم ہے جبکہ مدحتِ خیر الورٰی سے ربط

کیسے بتلاؤں کہ پھر ہوں گا میں کتنا محظوظ

تُو ہر غم کا دافِع اے مَرفوع و رافِع