مطلعِ نورِ الٰہی ہے نہارِ عارض

مطلعِ نورِ الٰہی ہے نہارِ عارض

مصدرِ ہشت جناں فیضِ بہارِ عارض


اے سیہ کارو ! تمہیں طلعتِ بخشش کی نوید !

لِلہ الحمد کہ ہے زلف کنار عارض


جیسے تفسیرِ "جلالین " ہو گردِ مصحف

ایسے ہی خط ہے یمین اور یسارِ عارض


تیغِ تنویر سے کردوں گا ابھی تجھ کو ہلاک

میں ہوں اے ظلمتِ غم ! عاشقِ زارِ عارض


شعلۂِ جرم نہ کیوں گلشنِ حسنات بنے ؟

’’نارِ دوزخ کو چمن کردے بہارِ عارض ‘‘


فن مہکتا ہے ، کہ ہے واصفِ زلفِ مشکیں

حرف روشن ہیں ،کہ ہیں مدح نگارِ عارض


چاہِ یوسف ذَقَنِ سیدِ عالم کی جھلک

نورِ کل ، حسنِ جہاں آئنہ دارِ عارض


حسنِ صورت کی نہیں اس میں معظمؔ تخصیص

قاسمِ جملہ محاسن ہے وقارِ عارض

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

رب نے بخشا جو تِری مدح و ثنا کا اعزاز

ہوجائے گی ہر شوکتِ شاہانہ سبوتاژ

نَسَباً آپ ہیں اَنفَس، اے زَکِیّ و اَنفَس !

بادشاہی کی ہے نہ زر کی تلاش

جس کو شرف مآب کرے وصفِ پائے خاص

قائم ہے جبکہ مدحتِ خیر الورٰی سے ربط

کیسے بتلاؤں کہ پھر ہوں گا میں کتنا محظوظ

تُو ہر غم کا دافِع اے مَرفوع و رافِع

ہے مدحِ نعلِ شاہ کے زیرِ اثر دماغ

سحاب ، از پئے کشتِ امل درود شریف