بیٹھے ہیں ترے در پہ غلاموں پہ نظر ہو

بیٹھے ہیں ترے در پہ غلاموں پہ نظر ہو

تم والیِ کونین ہو تم نازِ بشر ہو


مدت سے ترے شہر کے انوار نہ دیکھے

مژدہِ کرم اب تو ملے اذنِ سفر ہو


بِن تیرے جو گزری ہے وہ ناشاد و پشیماں

باقی جو بچی ہے ترے قدموں میں بسر ہو


یہ اُن کی عطا ہے کہ ملی نوکری مجھ کو

وہ دیکھتے کب ہیں کہ کوئی وصف و ہنر ہو


بس انکو ہی مانا ہے ہمیں ان سے ہے مطلب

ہم کب ہیں جنہیں رونقِ دُنیا کا اثر ہو


دل تیرے تصور سے چمک اُٹھتا ہے میرا

ہو’’ نور علٰی نور ‘ ‘اگر تیرا گذر ہو


اُنْظُرکہوں آقا کبھی اَدْرِکْنِیْ پکاروں

یہ ورد وظیفہ ہی مرا شام و سحر ہو


خالی ہے شکیلؔ اب بھی یہ دامن دمِ رخصت

اُس شاہِ غریباں مرے آقاؐ کو خبر ہو

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

مقبول نہ ہوں در پہ یہ امکاں تو نہیں ہے

دل کی تسکیں کیلئے چھیڑئیے دلدار کی بات

عروجِ نوعِ بشر اقتدائے نقشِ قدم

ہر زمانہ ہی ترا مدح سرا لگتا ہے

نورِ عرفاں نازشِ پیغمبری اُمّی نبیؐ

مدینہ نور و نکہت کا خزانہ

دل کا تو ہی قرار ہے آقاؐ

کررہے ہیں اِس جہاں میں جس کی ہم مدح و ثنا

یادِ آقاؐ میں آگئے آنسو

دشمنِ جاں بھی ترے مدح سرا ہو جائیں