مقبول نہ ہوں در پہ یہ امکاں تو نہیں ہے

مقبول نہ ہوں در پہ یہ امکاں تو نہیں ہے

پر لفظ کوئی آپؐ کے شایاں تو نہیں ہے


اصحاب نے ہر چیز لُٹا دی ہے نبیؐ پر

یہ عشق کا دعویٰ کوئی آساں تو نہیں ہے


ہے نعت قدم بوسیِ سرکارِؐ دو عالم

یہ حسنِ سخن کا کوئی میداں تو نہیں ہے


یہ میرے درودوں میں کمی کس کیلئے آقاؐ

رحمت ترے رب کی کہیں نالاں تو نہیں ہے


بے باک دلوں کو ہے توجہ تری درکار

دُنیا کے ہیں غم پر غمِ عصیاں تو نہیں ہے


جو دینے سے پہلے مرے اطوار کو تولے

ایسی مری سرکارؐ کی میزاں تو نہیں ہے


آقاؐ تری سیرت کے یہ انوار عطا ہوں

ہمسائے سے پوچُھوں تو پریشاں تو نہیں ہے


ہے قلبِ جہاں پر بھی سدا جس کی حکومت

اِس خُلق کا حامل کوئی سلطاں تو نہیں ہے


جو طعنہ زنی پاک صحابہؓ پہ ہے کرتا

خود نجس ہے بدبخت وہ انساں تو نہیں ہے


بیٹھا ہی رہے گا یہ شکیلؔ آپ کے در پر

یہ رونقِ دُنیا مرا ارماں تو نہیں ہے

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

طرزِ سرکارؐ کو بس جانِ انقلاب لکھو

ہر رفعتِ دُنیا مری سرکارؐ پہ واری

درِ سخا پہ دِلِ بے قرار پیش کرو

پیکرِ نور ہے وہ نور کا سایا کب ہے

پست بے انتہا ہے میرا شعور

دل کی تسکیں کیلئے چھیڑئیے دلدار کی بات

عروجِ نوعِ بشر اقتدائے نقشِ قدم

ہر زمانہ ہی ترا مدح سرا لگتا ہے

نورِ عرفاں نازشِ پیغمبری اُمّی نبیؐ

بیٹھے ہیں ترے در پہ غلاموں پہ نظر ہو