بارگاہِ پا ک میں پہنچے ثنا کرتے ہوئے
مدّعا پایا ہے عرضِ مدّعا کرے ہوئے
بے نیازِ نعمت ِ کون و مکاں ہوتے گئے
کوچہ سلطانِؐ عالم میں صدا کرتے ہوئے
دیدہ و دل میں گلِ جلوہ سمٹتے ہیں کہاں
کب یہ صورت سامنے تھی التجا کرتے ہوئے
کب مجھے تھی جاں کی پروا، کب مجھے تھا سر کا ہوش
سجدہء شکر اُن کی مسجد میں ادا کرتے ہوئے
کوئی آنے جانے والا ہر گھڑی نظروں میں تھا
کھوئے یوں نظارہء غارِ حرا کرتے ہوئے
لوگ چمکاتے چلے جائیں گے اپنے روزوشب
اسوہ سرکارؐ سے کسبِ ضیا کرے ہوئے
رمزِ ہستی ، رازِ فطرت ، سِّر ذات و کائنات
ہر خبر پائی تلاشِ مصؐطفےٰ کرتے ہوئے
التفاتِ سیّدِ سادات کب محدود ہے
وسعتِ دامن بھی دیتے ہیں عطا کرتے ہوئے
تھام کر دامن کو اُن کے بے محابا رو دیا
مَیں کہ گھبراتا تھا اُن کا سامنا کرتے ہوئے
شاعر کا نام :- حفیظ تائب
کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب