بڑھ کر ہے خاکِ طیبہ

بڑھ کر ہے خاکِ طیبہ، رفعت میں آسماں سے

شمس وقمر سے افزوں، روشن ہے کہکشاں سے


ارضِ حجاز ہے اِک عِشق ووفا کی بستی

افضل ہے کوئے احمد جنت کے گلستاں سے


گمراہی وجہالت انساں کا تھیں مقدر

علم وہنر جو پایا، پایا اس آستاں سے


آمد سے تیری پھلیں نور ویقیں کی کرنیں

رخصت ہوئے اندھیرے ویرانہ جہاں سے


کلیاں کھلیں خوشی سے پھولوں میں رنگ آیا

باغِ حیات مہکا خوشبوئے باغباں سے


طوفان کے تھپڑے حد سے گزر گئے ہیں

ناؤ بچے گی اپنی رحمت کے بادباں سے


چشمِ کرم ہو آقا بسنا وکاشر پر

نسبت ہے اب بھی اُن کو آقائے دوجہاں سے


مِدحتَ سرا ہے نقوی مولا کی عظمتوں کا

پھر خوف کیوں ہو اُس کو محشر کے امتحاں سے

شاعر کا نام :- آفتاب نقوی

دیگر کلام

ہم سوئے حشر چلیں گے شہؐ ابرار کے ساتھ

کیا کچھ نہیں ملتا ہے بھلا آپ کے در سے

جب تصور میں کبھی گنبد ِ خضراء دیکھوں

تو اوجِ رسالت ہے، شہِ خیر امم ہے

جس کا قصیدہ خالقِ عرش بریں کہے

مجھے کیا اعتماد الفاظ کی جادو گری پر ہے

جب مجھے حسنِ التماس ملا

چاند اُلجھا ہے کھجوروں کی گھنی شاخوں میں

درود اس پر کہ جس نے سر بلندی خاک کو بخشی

نور بہتا ہو جہا ں تشنہ لبی کیسے ہو