جس کا قصیدہ خالقِ عرش بریں کہے

جس کا قصیدہ خالقِ عرش بریں کہے

ایسا حسین حُسن بھی جس کو حسیں کہے


ہے ماورائے عقل و خرد ان کا مرتبہ

ذات ان کی بے مثال ہے رُوح الامیں کہے


قرآں کے حرف حرف میں انھی کی نعت ہے

یزداں اسے کلام میں مہر مبیں کہے


پڑھتے ہیں آسماں پر فرشتے بھی جب درود

ان پر سلام کیسے نہ پھر یہ زمیں کہے


فرمان، حق کا ہے تجھے سجدہ روا نہیں

ہر چند بار بار خمیدہ جبیں کہے


نقوی کو ایسا شیوہؔ گفتار ہو عطا

جس وقت بھی وہ نعت کہے دلنشیں کہے

شاعر کا نام :- آفتاب نقوی

دیگر کلام

انب منزل محبوب سفر میرا ہے

ہم سوئے حشر چلیں گے شہؐ ابرار کے ساتھ

کیا کچھ نہیں ملتا ہے بھلا آپ کے در سے

جب تصور میں کبھی گنبد ِ خضراء دیکھوں

تو اوجِ رسالت ہے، شہِ خیر امم ہے

بڑھ کر ہے خاکِ طیبہ

مجھے کیا اعتماد الفاظ کی جادو گری پر ہے

جب مجھے حسنِ التماس ملا

چاند اُلجھا ہے کھجوروں کی گھنی شاخوں میں

درود اس پر کہ جس نے سر بلندی خاک کو بخشی