چراغِ ایماں کی لَو کو تلوار کر رہا ہوں

چراغِ ایماں کی لَو کو تلوار کر رہا ہوں

محبتِ مصطفؐےٰ کی یلغار کر رہا ہوں


مری ولادت بھی صحنِ بوبکر میں ہوئی تھی

میں اُن کو سارے وجود سے پیار کر رہا ہوں


یہ حجرہ بھی کاش میرے آقا پسند کر لیں

نظر کو دہلیز دل کو دیوار کر رہا ہوں


لئے کھڑی ہیں ہوائیں احرام خوشبوؤں کے

حضورؐ کی خاکِ پا کو دستار کر رہا ہوں


فراز کوثر پہ جا کے نکلوں گا دیکھ لینا

میں اُن کے دریا کو ڈوب کر پار کر رہا ہوں


ہر اک اندھیرے سے دل کو خالی کرا لیا ہے

اب اپنی پر چھائیاں بھی مسمار کر رہا ہوں


عبادتیں بھی انہی کے صدقے قبول ہوں گی

اسی لئے یاد انھیں لگاتار کر رہا ہوں


یہ زخم ہجرِ رسولؐ بھی ٗ روح کی غذا ہیں

یہ زخم کھا کر ہی روزہ افطار کر رہا ہوں


مرے خدا میرے دیدہ و دل وسیع کر دے

میں اپنے حصے کی مدحِ سرکار کر رہا ہوں


اذان سے کم نہیں مری نعت بھی مظفر

بلال و حسّان کا میں کردار کر رہا ہوں

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- صاحبِ تاج

دیگر کلام

مفصلِّ حسنِ زندگی ہے

الیِ دیدہ و دل

ایسی روشنی دیکھی، ایسا راستہ پایا

سر پر غلامی کی دستار باندھوں

یوں با ادب کھڑا ہوں میں روضے

زمین پیاسی تھی اس سے پہلے

احمدؐ ہیں محمدؐ ہیں یٰسین ہیں طٰہٰ ہیں

ہے بے پناہ محبت مجھے

کُٹیا میں ایک چراغ جلا اور مچ گئی

آج عیدوں کی عید کا دن ہے