چشمِ دل چاہے جو اَنوار سے ربط

چشمِ دل چاہے جو اَنوار سے ربط

رکھے خاکِ دَرِ دِلدار سے ربط


ان کی نعمت کا طلبگار سے میل

ان کی رحمت کا گنہگار سے ربط


دشت طیبہ کی جو دیکھ آئیں بہار

ہو عنادِل کو نہ گلزار سے ربط


یا خدا دِل نہ ملے دنیا سے

نہ ہو آئینہ کو زَنگار سے ربط


نفس سے میل نہ کرنا اے دل

قہر ہے ایسے ستم گار سے ربط


دِلِ نجدی میں ہو کیوں ُحبِ حضور

ظلمتوں کو نہیں اَنوار سے ربط


تلخی نزع سے اس کو کیا کام

ہو جسے لعل شکر بار سے ربط


خاک طیبہ کی اگر مل جائے

آپ صحت کرے بیمار سے ربط


ان کے دامانِ گہربار کو ہے

کاسۂ دست طلبگار سے ربط


کل ہے اِجلاس کا دن اَور ہمیں

میل عملہ سے نہ دَربار سے ربط


عمر یوں ان کی گلی میں گزرے

ذَرَّہ ذَرَّہ سے بڑھے پیار سے ربط


سرِ شوریدہ کو ہو دَر سے میل

کمرِ خستہ کو دِیوار سے ربط


اے حسنؔ خیر ہے کیا کرتے ہو

یار کو چھوڑ کر اَغیار سے ربط

شاعر کا نام :- حسن رضا خان

کتاب کا نام :- ذوق نعت

دیگر کلام

جنابِ مصطفیٰ ہوں جس سے نا خوش

جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تک

جاتے ہیں سوئے مَدینہ گھر سے ہم

جائے گی ہنستی ہوئی خلد میں اُمت ان کی

جان سے تنگ ہیں قیدی غمِ تنہائی کے

حضورِ کعبہ حاضر ہیں حرم کی خاک پر سر ہے

خدا کی خلق میں سب انبیا خاص

خاکِ طیبہ کی اگر دل میں ہو وَقعت محفوظ

خوشبوئے دشت ِطیبہ سے بس جائے گر دِماغ

دل مرا دنیا پہ شیدا ہوگیا