دل مرا دنیا پہ شیدا ہوگیا

دل مرا دنیا پہ شیدا ہوگیا

اے مرے اللہ یہ کیا ہو گیا


کچھ مرے بچنے کی صورت کیجئے

اب تو جو ہونا تھا مولٰی ہوگیا


عیب پوشِ خلق دامن سے تِرے

سب گنہگاروں کا پردہ ہوگیا


رکھ دیا جب اس نے پتھر پر قدم

صاف اک آئینہ پیدا ہوگیا


دور ہو مجھ سے جو اُن سے دور ہے

اس پہ میں صدقے جو ان کا ہوگیا


گرمیٔ بازار مولیٰ بڑھ چلی

نرخِ رحمت خوب سستا ہوگیا


دیکھ کر اُن کا فروغِ حسنِ پا

مہرِ ذَرَّہ چاند تارا ہوگیا


رَبِّ سَلِّم وہ اِدھر کہنے لگے

اس طرف پار اپنا بیڑا ہوگیا


ان کے جلووں میں ہیں یہ دلچسپیاں

جو وہاں پہنچا وہیں کا ہوگیا


تیرے ٹکڑوں سے پلے دونوں جہاں

سب کا اس در سے گزارا ہوگیا


اَلسَّلَام اے ساکنانِ ُکوئے دوست

ہم بھی آتے ہیں جو اِیما ہوگیا


اُن کے صدقہ میں عذابوں سے چھٹے

کام اپنا نام اُن کا ہوگیا


سر وہی جو اُن کے قدموں سے لگا

دل وہی جو اُن پہ شیدا ہوگیا


حسن یوسف پر زُلیخا مٹ گئیں

آپ پر اللہ پیارا ہو گیا


اس کو شیروں پر شرف حاصل ہوا

آپ کے دَر کا جو کتا ہوگیا


زاہدوں کی خلد پر کیا دھوم تھی

کوئی جانے گھر یہ ان کا ہوگیا


غول ان کے عاصیوں کے آئے جب

چھنٹ گئی سب بھیڑ رَستہ ہوگیا


جا پڑا جو دشتِ طیبہ میں حسنؔ

گلشنِ جنت گھر اس کا ہوگیا

شاعر کا نام :- حسن رضا خان

کتاب کا نام :- ذوق نعت

دیگر کلام

چشمِ دل چاہے جو اَنوار سے ربط

حضورِ کعبہ حاضر ہیں حرم کی خاک پر سر ہے

خدا کی خلق میں سب انبیا خاص

خاکِ طیبہ کی اگر دل میں ہو وَقعت محفوظ

خوشبوئے دشت ِطیبہ سے بس جائے گر دِماغ

دشمن ہے گلے کا ہار آقا

دشتِ مَدینہ کی ہے عجب پربہار صبح

دل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہو

دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو

دمِ اضطراب مجھ کو جو خیالِ یار آئے