اسم تیرا ہے ثنائے تازہ

اسم تیرا ہے ثنائے تازہ

اک نئی نعت نوائے تازہ


یوں بھی کہلائی تری بات حدیث

اس میں رہتی ہے ادائے تازہ


شہرِ جاناں ہے بہت عطر فشاں

لے کے زلفوں کی ہوائے تازہ


شہرِ انور کے چمکتے کوچے

نسبتِ ضَو کی ضیا ئے تازہ


لمس پاتے ہی ترے قدموں کا

ہو گئی خاک شفائے تازہ


سایہ افگن ہے بہ فیضِ مدحت

حرف و خامہ پہ ردائے تازہ


یہ جو مہکا ہے مرا صحنِ سخن

یہ ہے نعتوں کی فضائے تازہ


نعت لفظوں کی ہے طلعت باری

حرف و معنی کی ضیائے تازہ


نعت نعمت کا تشکّر پیہم

شکرِ نعمت کی ادائے تازہ


نعت آقا کی عطا کا جوبن

نعت منعم کی عطائے تازہ


نعت آقا کی مجسّم نعمت

نعت آقا کی رضائے تازہ


نعت آقا کا کرم بارِ دگر

نعت بندے کی وفائے تازہ


نعت احساس کا عجزِ لفظی

نعت تنسیخِ انائے تازہ


نعت کے حرف، معانی کا بھرم

لطف رہتا ہے ورائے تازہ


اب چلو تم بھی مدینے نوری

لے کے یہ اپنی ثنائے تازہ

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

میں تو کم تر ہوں مری بات ہے اعلیٰ افضل

ربّ کے محبوب کی ہر بات ہے اعلیٰ افضل

آپ کی رب کو تحیّات ہے اعلیٰ افضل

نگاہوں میں چمکتا ہے یہ منظر سبز گنبد کا

کہکشاں کہکشاں آپ کی رہگذر

یہ جو حسنِ خیال ہے آقا

رنگ خوشبو صبا خوش فضا آپ سے

جس نے یادوں میں ہمیں عرشِ خدا پر رکھا

یہ جو عشّاق ترے طیبہ میں آئے ہوئے ہیں

مسافرانِ رہِ مدینہ محبتوں کا سفر مبارک