جس نے یادوں میں ہمیں عرشِ خدا پر رکھا

جس نے یادوں میں ہمیں عرشِ خدا پر رکھا

ہم نے مشکل میں اسے حامی و یاور رکھا


خیرہ کرتے بھی تو کیسے ہمیں مغرب کے چراغ

سامنے ہم نے ہمیشہ رُخِ دلبر رکھا


جان سرکار کے قدموں پہ نچھاور کردی

دل بھی سرکار کی راہوں میں بچھا کر رکھا


تجھ کو چاہا تجھے سوچا تجھے لکھا برسوں

دید کی پیاس کو اکثر لبِ ساغر رکھا


میری اوقات ہی کیا ہے کہ تری نعت کہوں

تیری رحمت نے مجھے تیرا ثنا گر رکھا


نام جب بھی شہِ عالم کا لکھا یا چوما

میری پَوروں کو بھی قدرت نے معنبر رکھا


گرچہ ہم آن بسے غرب کی دُنیا میں ظفر

رشتہ آقا سے غلامی کا برابر رکھا

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

نگاہوں میں چمکتا ہے یہ منظر سبز گنبد کا

کہکشاں کہکشاں آپ کی رہگذر

اسم تیرا ہے ثنائے تازہ

یہ جو حسنِ خیال ہے آقا

رنگ خوشبو صبا خوش فضا آپ سے

یہ جو عشّاق ترے طیبہ میں آئے ہوئے ہیں

مسافرانِ رہِ مدینہ محبتوں کا سفر مبارک

مہکے تمہاری یاد سے یوں قریۂ وجود

حضور آئے بہاروں پر عجب رنگِ بہار آیا

کعبہ سیاہ پوش ہے کس کے فراق میں