جی رہا ہوں میں اُس دیار سے دُور

جی رہا ہوں میں اُس دیار سے دُور

چارہ جوُ جیے چارہ کار سے دور


ہوں سراپائے حسرتِ دیدا

آج میں شہر شہر یار سے دور


آبجو کی طرح ہوں سرگرداں

نکل آیا ہوں کو ہسارسے دور


اِک بگولا ہوں دشتِ غربت میں

فزئیہ راحت و قدار سے دور


لب پہ آیا ہُوا سوال ہوں میں

محفل یارِ راز دار سے دور


تیرکھایا ہُوا غزال ہوں میں

غمگسارانِ جانثار سے دور


گم ہوں یادِ حبیبؐ میں تائبؔ

فکرِ فردا کے خلفشار سے دور

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

خدا نے خود بتایا ہے مرے آقا نبی خاتم

لطف و کرم خدا نے کیا ہے نزول کا

قرآن میں دیکھا تو انداز نرالا ہے

اُن پہ لکھنا شِعار ہے میرا

جب کیا میں نے قصدِ نعت حضورؐ

پھر ہوا سازِ مدح زمزمہ سنج

اے مظہر لایزال آقا

خوش خصال و خوش خیال و خوش خبر، خیرالبشرؐ

پائی نہ تیرے لطف کی حد سیّد الوریٰ

بادِرحمت سنک سنک جائے