خواب، ہی میں رُخِ پُر نور دکھاتے جاتے

خواب، ہی میں رُخِ پُر نور دکھاتے جاتے

تیرگی میرے مقدّر کی مٹاتے جاتے


ڈال کر ایک نظر روح کی پہنائی میں

اس خرابے کو سمن زار بناتے جاتے


غار کو چشمہ انوار بنانے والے

افقِ دل سے بھی مہتاب اُگاتے جاتے


کاش طیبہ میں سکونت کا شرف مل جاتا

دیکھتے روضہ سرکارؐ کو آتے جاتے


اُس خنک شہر کو جاتی ہوئی اے نرم ہوا

ساتھ لے جامرے جذبات بھی جاتے جاتے

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

نبیؐ کو مظہرِ شانِ خدا کہیے، بجا کہی

دل بھی کیا ہے بس اِ ک طلب کے سوا

زیست کے عنواں اشاراتِ رسولِؐ ہاشمی

وقفِ ذکرِ شہِؐ حجاز رہوں

ہجومِ رنگ ہے میری ملول آنکھوں میں

رونقِ عالمِ رنگ و بو آپؐ ہی

جس سے ہے بحرِ جاں انوار کا تلاطم

روح مین کیفِ ثنا پاتا ہوں

رسولِؐ عالمیاں، ذاتِ لم یزل کا حبیب

لب پر نبیؐ کا اسمِ مبارک رواں ہوا