سیرت کے نور آپ نے جن کو دِیئے حضور !

سیرت کے نور آپ نے جن کو دِیئے حضور !

اُن کے نقوشِ پا پہ ہیں روشن دِییے حضور !


در اُمَّتانِ سابِقہ گر کامِلے حضور !

اس کو بھی فیض آپ کے در سے مِلے حضور !


جبریلِ حرف عرشِ ثنا کو نہ پا سکا

در ماندہ ہے عقابِ تخیّل ترے حضور "


واللّٰہ عزیزِ مِصرِ کمالاتِ کل ہیں آپ

اور آپ جانِ یوسفِ کنعاں مِرے حضور !


ہیں آپ زیرِ سایۂِ " وَاللّٰہُ یَعصِمُک"

کیا گرمیِٔ فریبِ عدو کر سکے حضور !


کشتِ اَمَل ہے خشک تو قحطِ عَمَل میں ہم

بارانِ خیر اک ذرا برسائیے حضور !


درپیش پھر سے معرکۂِ بَدر ہے نیا

پِھر نُصرتِ خدا کی دعا کیجیے حضور !


میرے گلے میں ڈال لے بانہیں خود آکے خلد

میت جو میری آپ کے در سے اُٹھے حضور !


پڑ جائے گر نگاہِ منوّر بہ نورِ حق

قلبِ سیاہ آئِنہ صورت بنے حضور !


پِھر بخش دیں تصلُّبِ رضوی بہ چشمِ فیض !

کچھ سنّی ہوتے جاتے ہیں اب پِلپِلے حضور !


بحرِ بسیطِ عفو سے قطرہ عطا کریں

نارِ گناہ سے نہ معظمؔ جلے حضور !

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

سب سے ازہَد اے مِرے واضعِ سنگِ اسود !

محبوب کی قربت میں محب کا بھی پتہ ڈھونڈ

اسمِ اعظم مرے آقا کا ہے ایسا تعویذ

ہوں الگ طور کا بیمار اے رسولِ مختار

اِس خانۂِ ظلمت کو اجالا ہو میسّر

درود آپ کی نرمیِٔ صُلح جُو پر

تاریک دلِ زار ہے ، صد رشکِ قمر کر

بخشش کا نور لائی ہے صبحِ جمالِ یار

کشتِ خیال خشک ہے ، ابرِ سخا سے جوڑ !

رب نے بخشا جو تِری مدح و ثنا کا اعزاز