شبِ انتظار میں سو گیا وہ مرا نصیب جگا گئے

شبِ انتظار میں سو گیا وہ مرا نصیب جگا گئے

یہ کرم ہے میرے کریم کا کہ وہ میرے خواب میں آگئے


میں ہجومِ غم کا نقیب تھا، شبِ تار میرا نصیب تھا

مرے گھر میں چاند اتر گیا وہ جمال اپنا دکھا گئے


وہ جو تاجدارؐ شہاں ہوئے، جو امیرِؐ بزمِ جہاں ہوئے

جو شہؐ زمین و زماں ہوئے، جہاں دل کیا وہاں آ گئے


وہ مقیمِ غارِ حرا ہوئے کہ مکینِ عرشِ علیٰ ہوئے

وہ جدھر جدھر سے گزر گئے سبھی راستوں کو سجا گئے


ہمہ وقت پیش ِ خدا کیا، غم ِ عاصیاں کا سوال تھا

وہ جو لب ہلے، وہ جو ہاتھ اٹھے ہمیں ہر بلا سے بچا گئے


یہ جو اللہ والے ہیں امتی، ہے انہی کے دم سے یہ روشنی

جو نہ حشر تک بھی بجھیں کبھی، وہ چراغ ایسے جلا گئے


جو زباں سے نکلا وہی ہوا، تھی مرے خدا کی یہی رضا

انہیں رب نے اپنا بنا لیا جنہیں آپ اپنا بنا گئے


بڑے اونچے ان کے نصیب تھے، جو ظہوریؔ ان کے قریب تھے

جو مرے حضورؐ کے روبرو انہیں ان کی نعت سنا گئے

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- توصیف

دیگر کلام

مٹیں رنج و غم آزما کے تو دیکھو

بڑی دیر کی ہے تمنا، الہٰی مجھے بھی دکھا دے دیارِ مدینہ

ہر سوالی جہاں اپنی جھولی بھرے اس درِ مصطفیٰ کی سدا خیر ہو

جلوہ گر حضورؐ ہو گئے

کرم چار سو ہے، جدھر دیکھتا ہوں

ویرانے آباد نہ ہوتے، ایک جو ان کی ذات نہ ہوتی

ملا نہ سایہ کوئی ان کی رحمتوں کی طرح

نظارے ہیں گو لاکھوں جہاں بھر کے نظر میں

شہنشاہؐ ِ کون و مکاں آ گئے ہیں

محبتوں کے دیے جلاؤ، نبیؐ کی الفت کے گیت گاؤ