شہِ کون و مکاں موجود شب جائے کہ من بودم

شہِ کون و مکاں موجود شب جائے کہ من بودم

سماں کیا خوب تھا مسعود شب جائے کہ من بودم


ملائک دست بستہ تھے سلامی کے لئے حاضر

فضا تھی مشک عنبر عود شب جائے کہ من بودم


نگاہوں میں تجلی دیکھ سکنے کی سکت کم تھی

جمالِ شاہ تھا افزود شب جائے کہ من بودم


فقط دو نین تھے فرقت کے سارے دکھ سنانے کو

کہ صوت و حرف تھے مفقود شب جائے کہ من بودم


اکٹھے کر رہا تھا کچھ معطر حرف قرآں سے

ثنا تھا مقصد و مقصود شب جائے کہ من بودم


سجی تھی مجلسِ مدحت سبھی تھے سر بہ خم شاعر

’’محمد میرِ مجلس بود شب جائے کہ من بودم‘‘


عطا، وہم و گماں سے بھی ورا تھی شاہ کی لیکن

طلب میری رہی محدود شب جائے کہ من بودم

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- انگبین ِ ثنا

دیگر کلام

محراب کی بغل میں تنا تھا کھجور کا

رب کی ہرشان نرالی ہے

بڑھے گی الفتِ رسول بے بہا درود پڑھ

خامۂ اشفاق ہے مبہوت فن سجدے میں ہے

نبی کی تخلیق رب کا پہلا کمال ہوگا یہ طے ہوا تھا

ہر خوشبو کے ہر جھونکے کی پہلی چاہ مدینہ ہے

لفظ ہیں خاک مرے اور زباں مٹی ہے

دیارِ نور ہے عطائے بے کراں زمین پر

جبیں کو شاہ کے در کا نیاز مند کیا

انگلی کا اشارہ ملتے ہی یک لخت قمر دو لخت ہوا