محراب کی بغل میں تنا تھا کھجور کا

محراب کی بغل میں تنا تھا کھجور کا

دورانِ خطبہ بنتا تھا ہمدم حضورؐ کا


سوکھے تنے سے پشت لگاتے تھے ذی وقارؐ

وہ چومتا تھا پشتِ محمدؐ کو بار بار


لمسِ حبیبؐ کے لئے رہتا تھا بے قرار

جمعہ کا سات روز وہ کرتا تھا انتظار


اصحابؓ نے جب آپؐ کا منبر بنا دیا

ممبر بنا تو ایک عجب واقعہ ہوا


ہجرِ نبیؐ نے اس قدر پامال کر دیا

رو رو کے خود کو حال سے بے حال کر دیا


آواز اس کے رونے کی سنتے تھے مصطفیؐ

اصحابِؓ مصطفیؐ نے بھی دیکھا یہ ماجرہ


آئے اُتر کے منبرِ پر نور سے حضورؐ

اُس کو گلے لگا کے دیا آپؐ نے سرور


کس درجہ دلنشین یہ کردارِ عشق ہے

بے جان ’’ حنانہ ‘‘ بھی گرفتارِ عشق ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ خلد

دیگر کلام

مِلے ترا عشق یامحمدؐ

دل اگر صلِ علیٰ کے ورد کا پابند ہو

نامِ شاہِ اُممؐ دل سے لف ہو گیا

تپتی دُھوپ

یہ پھول کلیاں

رب کی ہرشان نرالی ہے

بڑھے گی الفتِ رسول بے بہا درود پڑھ

خامۂ اشفاق ہے مبہوت فن سجدے میں ہے

نبی کی تخلیق رب کا پہلا کمال ہوگا یہ طے ہوا تھا

شہِ کون و مکاں موجود شب جائے کہ من بودم