تری بے کراں ذات انوار سے پُر

تری بے کراں ذات انوار سے پُر

اُدھر لاکھ جلوے اِدھر اک تحیُّر


حقیقت میں تُو کیا ہے اللہ جانے

تُجھے ہم جو سمجھے ہمارا تصوّر


ازل سے یہاں خس بہ دنداں تعقّل

ابد تک ہے سر در گریباں تفکرّ


تری جستجُو میں خرد پا شکستہ

تیری راہ میں سر بریدہ تصّور


بشر پر ترے حُسنِ سیرت کا احساں

تواضع، تحمّل، تفہُّم، تدبّر


بُتوں سے خُدا کی طرف باگ موڑی

دیا ذہن اِنساں کو تُو نے تغیُّر


ترے فقر کے روبرو سر فگندہ

سلاطیں کی نخوت، شہوں کا تکبّر


تری ذاتِ اشرف، تری ذاتِ اقدس

بشر کا تحمّل، خُدا کا تفاخر


مِری نعت گوئی میں تیرا عطیّہ

یہ حُسنِ بیاں، یہ جمالِ تاثّر

شاعر کا نام :- عاصی کرنالی

کتاب کا نام :- حرف شیریں

دیگر کلام

ہمارے چراغ اور تمہارے چراغ

کرتے ہیں سرکارؐ خود دِل داریاں

مَلوں گا خاک خط و خالِ رُخ نِکھاروں گا

مصائب میں تُجھ سے توسل کیا

اَب تو مَیں کچھ بھی نہیں اشکِ ندامت کے سوا

نظر سے تری اے رسُولِؐ انام

رب کے سُورج سے نمودار ہُوا دن میرا

خاک بوس اُن کے فلک زیرِ قدم رکھتے ہیں

ہر طرف جب ترے انوار جھلکتے جائیں

آگے بڑھتا ہُوں تو مَیں عرش سے ٹکراتا ہُوں