وقت کی آنکھ محو سفر تھی

وقت کی آنکھ محو سفر تھی

مسلسل ...... جلوه بعد جلوه


اور پھر یہ آنکھ اُس پر رک گئی

جو آئینہ حسن یقیں تھا


جس نے دنیا میں اپنی آمد سے پہلے

اپنے نفمے سنے


انبیاء نے جس سے

میثاق وفا باندها


آدم کی تکریم

فرشتوں کا سجدہ


خاک دانِ تیرہ کے انتشار میں زندگی کی نمو

زندگی کے مرحلے


ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف

کہکشائیں


سیارے

یہ سب خیر مقدمی مراحل تھے


اور پھر

بر خیز کہ آدم را ہنگام نمود آمد


اسی ہنگامہ نمود کو

یوم میلاد محمد کہتے ہیں

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

کنار بحر

نبي محترم صدیاں تمہارے نام سے روشن

سانپ نے صدیق کو جب غار میں ڈسا

اگر محمد نہ ہوتے

اُس کا نام میری پہچان ہے

آسماں گر تیرے تلووں کا نظارہ کرتا

آپ کے دَر کی عجب توقیر ہے

ایسا تجھے خالق نے طرح دار بنایا

اگر قسمت سے میں ان کی گلی میں خاک ہو جاتا

اگر چمکا مقدر خاک پائے رہرواں ہو کر