سانپ نے صدیق کو جب غار میں ڈسا

سانپ نے صدیق کو جب غار میں ڈسا

تو ترا لعاب ہن


اُس کے لئے آخر شفا بن گیا

اور دشمنوں کے قدم


جب غار کے نزدیک آوازوں میں ڈھلے

تو تو نے کہا


لاتحزن إن الله معنا

اور جب میرے رفیقوں نے مجھے ڈسا


تو تیرا لعابدہن

جو آج بھی تیرے لفظوں میں محفوظ ہے


میرے لئے شفا بن گیا

اور دشمنوں کے قدم


جب مرے وجود کی دہلیز کے قریب آگئے

تو تو نے کہا


لا تحزن إن الله معنا

تو مرے وجود میں زندہ ہے


اس فضا اس کا ئنات کے لئے

آج بھی تو سب سے بڑی سچائی ہے


اور زندگی

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

کبھی بادل کے رنگوں میں

یک مصرعی نظم

سمندر کتنا پیارا ہے

کنار بحر

نبي محترم صدیاں تمہارے نام سے روشن

اگر محمد نہ ہوتے

اُس کا نام میری پہچان ہے

وقت کی آنکھ محو سفر تھی

آسماں گر تیرے تلووں کا نظارہ کرتا

آپ کے دَر کی عجب توقیر ہے