وہ مت آئے اِدھر جو خود نگر ہے

وہ مت آئے اِدھر جو خود نگر ہے

برائے منکسِر مدحت نگر ہے


رُکے کیوں کامِ ناعِت ، ہاتھ میں جب

کلیدِ قفلِ ابوابِ اثر ہے


بہ فیضِ گنج بخشیِ شہِ خلد

کوئی داتا ، کوئی گنجِ شکر ہے


ترا خالد صفت ، پیشِ ہزاراں

نہتا بے خطر سینہ سپر ہے


دلِ انور مکینِ حجرۂِ قدس

مکانِ سرِّ وحدت ان کا سر ہے


خزف خصلت دلوں کو یہ بتادو !

’’نگاہ مصطفیٰ آئینہ گر ہے‘‘


ہو اس انگشت کوکیا شَق میں مشکل؟

کھلونا جس کے بچپن کا قمر ہے


جو وہ ناراض ہوں تو در ہے دیوار

اگر راضی ہوں تو دیوار در ہے


لیا جائے گا نام ان کا ، معظم

جبھی دنیائے دل زیر و زبر ہے

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

مسیحا وہ سب سے جدا بن کے آئے

وہی مومن جسے تو سب سے فزوں ہے یوں ہے

نہ انعاماتِ عقبیٰ سے نہ دنیائے دَنی سے ہے

دشتِ سخن کو خلد بہ داماں بنائیے

بہ تیغِ ابرو سرِ بلا کو قلم کریں گے

رسولِ اُمّی جسے آشنائے راز کرے

نہیں یہ عرض کہ آسُودۂ نِعَم رکھیے

ہر ایک سورۂ قرآں سنائے بسم اللہ

خواب خواہش طلب جستجُو نعت ہے

اُن کی یاد آئی تو بھر آئے سحابِ مژگاں