نہ انعاماتِ عقبیٰ سے نہ دنیائے دَنی سے ہے

نہ انعاماتِ عقبیٰ سے نہ دنیائے دَنی سے ہے

غرض ہم کو جمالِ یار کی جلوہ گری سے ہے


کسی کو ساری دنیا میں کہاں اتنی کسی سے ہے ؟

رسول پاک کو جتنی محبت امتی سے ہے


مقلّد حضرت حسان کا ہوں فقہِ شِعری میں

’’مری پہچان بس نعت رسول ہاشمی سے ہے‘‘


مدد فرما اے نعلِ فاتحِ بدر و احد ! میری

کہ خود پِس جائے جو دشمن کا لشکر دانت پیسے ہے


ثنا تصویر کی مدح مصور ہے حقیقت میں

لہٰذا نعتِ احمد حمدِ خلاقِ غنی سے ہے


ظہورِ جاہ و حشمت ہو تو رب جانے ہو کیا عالم ؟

بقیدِ رعب جب عالم تمہاری سادگی سے ہے


تجلیِ صفاتی کا محل یونہی نہیں زاہد !

شرف یہ طور کو حاصل کمالِ عاجزی سے ہے


سفالت خو ہے خود گرچہ مگر خامہ معظم کا

عُلو آثار ہو کیونکر نہ ،جب نسبت علی سے ہے

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

جب آنکھ عشق میں نَم ہو تو نعت ہوتی ہے

حکم ہے عالَم کو دیوانے کا دیوانہ رہے

وہیں نجوم و مہ و مہر کا گھِراؤ ہے

مسیحا وہ سب سے جدا بن کے آئے

وہی مومن جسے تو سب سے فزوں ہے یوں ہے

دشتِ سخن کو خلد بہ داماں بنائیے

بہ تیغِ ابرو سرِ بلا کو قلم کریں گے

وہ مت آئے اِدھر جو خود نگر ہے

رسولِ اُمّی جسے آشنائے راز کرے

نہیں یہ عرض کہ آسُودۂ نِعَم رکھیے