وہیں نجوم و مہ و مہر کا گھِراؤ ہے

وہیں نجوم و مہ و مہر کا گھِراؤ ہے

جہاں پہ ناقۂِ سرکار کا پڑاؤ ہے


نہیں تغزُّلِ وجہِ ضِیاعِ وقت کا شوق

سوئے مُقَوِّمِ اوقات ہی جُھکاؤ ہے


دیارِ بادِ سکوں خیز ہے خیالِ ثنا

سوائے اس کے دہکتا ہوا الاؤ ہے


درود کاشفِ ہر کَرب ہے بَہ نصِّ حدیث

ہے کیا بلا یہ بلا ؟ کون سا دباؤ ہے ؟


لَبان و زلف و رخِ گُل کا فیض کیا پایا

چمن میں رنگ ہے ، مہکار ہے ،سبھاو ہے


سیاہی دُھل گئی عصیاں کی میرے نامے سے

بَہ فیضِ نعت عجب نور کا بہاؤ ہے


سراہتے ہوئے رب کہہ رہا ہے " لِنتَ لَھُم "

کچھ ایسا خوئے مبارک میں رکھ رکھاؤ ہے


ثنائے زلف کی تاروں سے رابطہ رکھیے !

ابھی کُھلے گا جو حالات کا تناؤ ہے


سمجھیے ! رشتہ کٹا ہے حضورِ یزداں سے

اگر خیالِ درِ شاہ سے کٹاؤ ہے


شہِ ملیحِ دل آرا ! یہ زخم بھرجائے

بَہ ضربِ ہجر مِرے دل میں گہرا گھاؤ ہے


یہاں بھی ہم ہیں اسی سے حصارِ رحمت میں

بروزِ حشر بھی توصیف ہی بچاؤ ہے


ہے جبکہ عرض معَظمؔ بہ پیشِ افصحِ خلق

تو فرض نعت میں الفاظ کا چُناؤ ہے

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

اِک ترے نام کا اِرقام رسول عربی

گلاب چاند شہنشہ اِمام کیا کیا ہے

سب اندھیروں کو مٹانے کےلیے آپ آئے

جب آنکھ عشق میں نَم ہو تو نعت ہوتی ہے

حکم ہے عالَم کو دیوانے کا دیوانہ رہے

مسیحا وہ سب سے جدا بن کے آئے

وہی مومن جسے تو سب سے فزوں ہے یوں ہے

نہ انعاماتِ عقبیٰ سے نہ دنیائے دَنی سے ہے

دشتِ سخن کو خلد بہ داماں بنائیے

بہ تیغِ ابرو سرِ بلا کو قلم کریں گے