سب اندھیروں کو مٹانے کےلیے آپ آئے

سب اندھیروں کو مٹانے کےلیے آپ آئے

مہر ذروں کو بنانے کےلیے آپ آئے


یا نبی ! بادِ شفاعت سے گنہگاروں کے

دامنِ تر کو سُکھانے کےلیے آپ آئے


نارِ آلام و مصائب سے جَلے لوگوں کو

باغِ فرحت میں بسانے کےلیے آپ آئے


آقا پیدل ہے تو ناقہ پہ ہے موجود غلام

یوں مساوات سکھانے کےلیے آپ آئے


بیٹیوں کو جو کیا کرتے تھے زندہ در گور

ان کو انسان بنانے کےلیے آپ آئے


آپ کی شان رَفَعنا لَکَ ذِکرَک ٹھہری

سارے گِرتوں کو اٹھانے کےلیے آپ آئے


نوعِ انساں کو بَہائم سے جو ممتاز کریں

ایسے آداب سکھانے کےلیے آپ آئے


حسنِ دنیائی کے چکّر میں پڑے لوگوں کو

حسنِ ازلی سے مِلانے کےلیے آپ آئے


عہدِ میثاق میں روحوں نے کہا تھا جو "بَلٰی"

وہ صدا یاد دِلانے کےلیے آپ آئے


بحرِ تذلیل میں ڈوبوں کو معظمؔ کرکے

تختِ عِزّت پہ بٹھانے کےلیے آپ آئے

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

تسکینِ مساکیں ہے تِری شانِ کریمی

اے جانِ ردائف ! دلِ انواعِ قوافی !

تابع ہے تِرا رستۂِ فردوس کا راہی

اِک ترے نام کا اِرقام رسول عربی

گلاب چاند شہنشہ اِمام کیا کیا ہے

جب آنکھ عشق میں نَم ہو تو نعت ہوتی ہے

حکم ہے عالَم کو دیوانے کا دیوانہ رہے

وہیں نجوم و مہ و مہر کا گھِراؤ ہے

مسیحا وہ سب سے جدا بن کے آئے

وہی مومن جسے تو سب سے فزوں ہے یوں ہے