یارب رواں یہ سانس کی جب تک لڑی رہے

یارب رواں یہ سانس کی جب تک لڑی رہے

مستی نبی کے عشق کی مجھ کو چڑھی رہے


بو لا خدا کے واپسی ہو جب تک نہ آپ کی

جو شَے جہاں کھڑی ہے وہیں پر کھڑی رہے


دیوانہ اپنی ذَات کا یُوں کیجئے مُجھے

مر کے بھی مجھ کو آپ کی حسرت بڑی رہے


سینے میں میرے جب تلک دھڑکن موجود ہے

تصویر شہرِ مصطفٰے دل میں جڑی رہے


جب تک مجھ کو پوچھنے آجائیں نہ حضور

یہ آخری جو سانس ہے یونہی اَڑی رہے


مرنے کے بعد حاکم حسرت ہے بس یہی

کوئے نبی میں حشر تک میت پڑی رہے

شاعر کا نام :- احمد علی حاکم

کتاب کا نام :- کلامِ حاکم

دیگر کلام

محمد محمد صدا دیونی ایں

جدوں اُٹھ جائے پردہ مکھڑے توں دیدار حسیں ہو جاندے نے

مجھے مصطفٰے کے ہوتے کس بات کی کمی ہے

بیٹھے کئی کلیم نے پردے دے سامنے

سکندی نہ ہمیں سروری چاہیے

سرکار کے جس دل میں بسے غم نہیں ہوتے

کیہڑے پاسے جاندے ایہہ سارے سوالی

اے قضا ٹھہر جا اُن سے کرلوں ذرااِک حسیں گفتگو آخری آخری

صدقہ حسنین کا اے آقا رُخِ انور کی

اَکھ روندی اے جد آوا دے دربار دے چیتے آوندے نے