سکندی نہ ہمیں سروری چاہیے
یا نبی آپ کی نوکری چاہیے
اور ہم کو مطلب ہے کیا قصرِ سلطان سے
سَعدیہ بس تیری جھونپڑی چاہیے
اپنی مَا زاغ آنکھیں ذرا کھولیے
اِن گھٹاؤں کو رنگ سُر مئی چاہیے
کل کو چھوڑو کہ کل ہو نہ ہو کیا خبر
آپ کی دِید بس آج ہی جاہیے
اپنے چہرے سے زُلفیں ہٹا دیجئے
تیرگی ہے بہت رَوشنی چاہیے
چہرہء مصطفٰے گر ہو پیشِ نظر
چاند چاہیے نہ پھر چاندنی چاہیے
دُور گزرے جو آقا تیرے شہر سے
ہم کو ایسی نہیں زندگی چاہیے
بولے آکے لحد میں نکیرین یُوں
سُننی حاکم سے نعتِ نبی چاہیے
شاعر کا نام :- احمد علی حاکم
کتاب کا نام :- کلامِ حاکم