سکندی نہ ہمیں سروری چاہیے

سکندی نہ ہمیں سروری چاہیے

یا نبی آپ کی نوکری چاہیے


اور ہم کو مطلب ہے کیا قصرِ سلطان سے

سَعدیہ بس تیری جھونپڑی چاہیے


اپنی مَا زاغ آنکھیں ذرا کھولیے

اِن گھٹاؤں کو رنگ سُر مئی چاہیے


کل کو چھوڑو کہ کل ہو نہ ہو کیا خبر

آپ کی دِید بس آج ہی جاہیے


اپنے چہرے سے زُلفیں ہٹا دیجئے

تیرگی ہے بہت رَوشنی چاہیے


چہرہء مصطفٰے گر ہو پیشِ نظر

چاند چاہیے نہ پھر چاندنی چاہیے


دُور گزرے جو آقا تیرے شہر سے

ہم کو ایسی نہیں زندگی چاہیے


بولے آکے لحد میں نکیرین یُوں

سُننی حاکم سے نعتِ نبی چاہیے

شاعر کا نام :- احمد علی حاکم

کتاب کا نام :- کلامِ حاکم

دیگر کلام

یوں تو اللہ نے کیا کیا نہ سنوارا ہوگا

محمد محمد صدا دیونی ایں

جدوں اُٹھ جائے پردہ مکھڑے توں دیدار حسیں ہو جاندے نے

مجھے مصطفٰے کے ہوتے کس بات کی کمی ہے

بیٹھے کئی کلیم نے پردے دے سامنے

یارب رواں یہ سانس کی جب تک لڑی رہے

سرکار کے جس دل میں بسے غم نہیں ہوتے

کیہڑے پاسے جاندے ایہہ سارے سوالی

اے قضا ٹھہر جا اُن سے کرلوں ذرااِک حسیں گفتگو آخری آخری

صدقہ حسنین کا اے آقا رُخِ انور کی