یہ تن میرا پیار کی نگری نگر کے اندر تو
جس صورت کا میں شیدائی اس کے اندر تو
گئے کعبہ میں تو گھیرا خیالِ زلف نے تیری
جو محرابِ حرم دیکھے تو ابرو تیرے یاد آئے
جہاں بھی رُخ پھیروں اپنا تیرا ہی جلوہ ہے ہر سُو
دیکھ کے مستی دیوانوں کی ہنسے نہ یہ سنسار
جیسے چاہے جسے نوازے یہ ہے نبی کا پیار
وہ چاہے ناچے بیچ بزار ، کہ اس کے من کے اندر تو
جنم جنم کے پاپی سارے اور دکھیارے لوگ
تیرے کرم کا پھر بھی ان سے سدا رہا سنجوگ
کہ یہ سب تیری الفت میں ترے غم تیری نسبت میں
بہاتے رہتے ہیں آنسو ، کہ ان کے من کے اندر تو
ادیبؔ کو جو رنگ دیا ہے اتنا اور بھی کردے
جب چاہے اور جس کو چاہے اپنے جیسا کر دے
یہ ہر دکھیا من کا غم خوار، محبت اس کا ہے بیوپار
بہاتا رہتا ہے آنسو ، حبیبی انت ساکن ہو