دل کے حرا میں ‘ اپنے خدا سے تیرے سوا ‘ کچھ بھی نہ مانگا
تُو مرا اَوّل ‘ تُو مرا آخر تُو مرا ملجا ‘ تُو مرا ماویٰ
بعدِ خدا اِک تُو ہی سہارا ‘ گھِر گیا میں تنہا بے چارا
چار طرف تاریخ کا جنگل ‘ تاک میں اَپنے ‘ گھات میں اَعدا
کتنے صحیفے میں نے کھنگالے ‘ نصف اَندھیرے ‘ نصف اُجالے
تو ہی حقیقت ‘ تو ہی صداقت ‘ باقی سب کچھ صرف ہیولا
یوں تو ہزار سیانے آئے ‘ رُوح کا دشت بسانے آئے
تیری گھٹا صحراؤں پہ اُمڈی ‘ اَبر اُن کا دریاؤں پہ برسا
بت خانے حیران کھڑے ہیں ‘ بت تیرے قدموں میں پڑے ہیں
تیرے جمال کی زد میں آکر ‘ کیسا کیسا پتھر ٹو ٹا
تو نے دِیا مفہوم نمو کو ‘ تو نے حیات کو معنی بخشے
تیرا وجود اثبات خدا کا ‘ تو جو نہ ہوتا ‘ کچھ بھی نہ ہوتا