مجھے نہ مژدہء کیفیتِ دوامی دے
مرے خدا ! مجھے اعزازِ ناتمامی دے
میں تیرے چشمہء رحمت سے شاد کام تو ہوں
کبھی کبھی مجھے احساسِ تشنہ کامی دے
مجھے کسی بھی معزز کا ہم رکاب نہ کر
میں خود کماؤں جسے ‘ بس وہ نیک نامی دے
وہ لوگ جو کئی صدیوں سے ہیں نشیب نشیں
بلند ہوں ‘ تو مجھے بھی بلند بامی دے
تری زمین پہ تیرے چمن رہیں آباد
جو دشتِ دِل ہے ‘ اُسے بھی تو لالہ خامی دے
بڑا سُرور سہی تجھ سے ہمکلامی میں
بس ایک بار مگر ذوقِ خود کلامی دے
میں دوستوں کی طرح خاک اُڑا نہیں سکتا
میں گردِ راہ سہی ‘ مجھ کو نرم گامی دے
عدوئے نم ہوں ‘ تو کر آندھیوں کی نذر ‘ مگر
رفیق گلِ ہوں ‘ تو مجھ کو صبا خرامی دے
اگر گِروں تو کچھ اس طرح سَر بلند گروں
کہ مار کر ‘ مرا دشمن مجھے سلامی دے