دوسرا کون ہے، جہاں تو ہے
کون جانے تجھے کہاں تو ہے
لاکھوں پردوں میں تو ہے بے پردہ
سو نشانوں میں تو بے نشاں تو ہے
تو ہے خلوت میں تو ہے جلوت میں
کہیں پنہاں، کہیں عیاں تو ہے
نہیں تیرے سوا یہاں کوئی
میزباں تو ہے، مہماں تو ہے
نہ مکاں میں نہ لامکاں میں کچھ
جلوہ فرما یہاں وہاں تو ہے
رنگ تیرا چمن میں، بو تیری
خوب دیکھا تو، باغباں تو ہے
محرم راز تو بہت ہیں امیرؔ
جس کو کہتے ہیں رازداں، تو ہے