کیا تذکرہ کروں مَیں ، آقا ؐ ترے نگر کا

کیا تذکرہ کروں مَیں ، آقا ؐ ترے نگر کا

جنت سے بھی ہے پیارا رستا ترے نگر کا


اِس کا تو ذرّہ ذرّہ آبِ کرم سے پُر ہے

دریا کو بھیک بخشے صحرا ترے نگر کا


آیا نظر مجھے بھی آقا ؐ ترا مدینہ

میرے بھی دل میں چمکا تارا ترے نگر کا


محسوس ہو رہا ہے جنت میں پھر رہا ہوں

پلکوں سے چومتا ہوں رستا ترے نگر کا


دنیا مجھے سناتی کیوں دوسروں کے قصّے

آتا نظر جو اس کو نقشہ تِرے نگر کا


کسیے نظر اُٹھائوں فردوس کی طرف میں

آنکھوں میں آ بسا ہے جلوہ ترے نگر کا


فیضیؔ کی خشک دنیا سیراب ہوگئی تھی

ابرِ کرم جو آکر برسا ترے نگر کا