رضویت ماتم کناں ہے مضطرب برکاتیت

رضویت ماتم کناں ہے مضطرب برکاتیت

کون دے پرسا کسے اور کون کس کو تعزیت


کس کے دامن میں چھپیں اور کس سے اب بپتا کہیں

ایک سناٹا ہے گردِ کاروانِ سنیت


حق نے بخشا تھا ہمیں ایسا مجلیّٰ آئینہ

خُلق میں تھا جو سراپا مصطفیٰ کا آئینہ


شاہ برکت شاہ حمزہ پیشوا کا آئینہ

بو الحسین احمد نوری ضیا کا آئینہ


زندگی ان کی تھی شرع مصطفیٰ کا آئینہ

قول و فعل و حال میں تھے مرتضیٰ کا آئینہ


حق نما حق بین و حق گو حق پرست و حق پسند

مردِ حق مشتاقِ حق حق کی ضیا کا آئینہ


جس کا نصب العین تھا اعلانِ حق تبلیغِ حق

زندگی جس کی تھی شرعِ مصطفیٰ کا آئینہ


اپنے مرشد حضرتِ نوری سے جو نوری بنا

صورت و سیرت میں وہ احمد رضا کا آئینہ


قوم نے جس کو دیا تھا مفتیء اعظم لقب

شارحِ قرآں حدیثِ مصطفیٰ کا آئینہ


جس کی آنکھوں میں جھلکتی تھی حیا عثماں کی

ظلِّ ذی النورین عثماں کی ضیا کا آئینہ


ذوالفقارِ حیدری کا جانشیں جس کا قلم

قول و فعل و حال میں وہ مرتضیٰ کا آئینہ


دل کا اچھا تن کا ستھرا مردِ کامل با صفا

اچھے پیارے شمس دیں بدر العلیٰ کا آئینہ


تازگی ایمان میں آتی تھی جس کو دیکھ کر

ستھرے پیارے نورِ حق شمس الضحیٰ کا آئینہ


جس کی ہیبت اہل باطل کے دلوں پر ثبت تھی

وہ رضائے مصطفیٰ شیرِ خدا کا آئینہ


جلوہء صدیق و فاروق و غنی مشکل کشا

مظہرِ حسنین اور غوث الوریٰ کا آئینہ


مسلکِ برکاتیت کا وہ علَم بردار تھا

تھا سراسر اپنے مرشد کی دعا کا آئینہ


یہ مناقب نظمی نے لکھے قلم برداشتہ

ہے قلم نظمی کا نوری کی عطا کا آئینہ