کیوں عقیدت سے نہ میرا دل پُکارے یا علی
جس کے ہیں مولا محمدؐ ، اُس کے ہیں مولا علی
جس گھڑی اللہ کے گھر میں ہوئے پیدا علی
ذرّہ ذرّہ با ادب ہو کر پُکارا ، یا علی
بے نظیر اُنکی شجاعت ، بے مثال اُن کی سخا
ہے زمانے کا یہ نعرہ لا فَتیٰ اِلّا علی
جاں نثارانِ محؐمد کے کئی القاب ہیں
عِلم کا دروازہ کہلائے مگر ، تنہا علی
مَرحَب و عَنتر گرے جس کے خدائی زور سے
مردِ حق ، شیرِ خدا ، خیبر کُشا ، مولا علی
شاہِ مرداں ، قوّتِ بازو رسوؐلَ اللہ کے
کیوں بھَلا ہوتے کسی میدان میں پسپا علی
جان و دل سے تھے عزیز ، اَللہ کے محبوبؐ کو
شبّر و شبیّر و حضرت فاطمہ زھرا، علی
آگئیں نقش و نگارِ زندگی میں رونقیں
صدقِ نیّت سے جو لوحِ دل پہ لکّھا یا علی
خیبر و خندق میں دُشمن کا صفایا کردیا
جوہرِ مردانگی دِکھلا گئے کیا کیا علی
جرات و ہمّت میں تُم ہو آپ ہی اپنا جواب
مادرِ گیتی نہ پیدا کر سکی تُم سا علی
دل گرفتہ ہُوں غم و آلام کی یلغار سے
اِس طرف بھی اک نظر ہو اے مِرے آقا، علی
جن کے چہرے پر نظر کرنا عبادت ہے نصیؔر
وہ حدیثِ مصطفےٰؐ کی رُو سے ہیں ، مولا علی