تسبیح شب و روز رہے نامِ خدا کی
صورت ہے یہی خوب تریں حمد و ثنا کی
اللہ نے بخشی ہے اسے اپنی نیا بت
محبوب کچھ اس درجہ ہوا آدمِ خاکی
ہر منظرِ ہستی میں سبھی رنگ ہیں اس کے
ہر عالمِ فانی میں وہی ذات ہے باقی
انسان کا ٹوٹا ہوا دل اس کا ہے مسکن
اس تک ہے رسائی تو فقط حرفِ دعا کی
ذکر اس کا کھلاتا ہے سدا روح میں غنچے
محتاج مری طبع نہیں آب و ہوا کی
آئی نہ کمی اس کی عطاؤں میں کسی وقت
ہر چند کہ دانستہ بھی تائبؔ نے خطا کی