علاج تشنہ لبی کا کمال برسا ہے
کہ دشتِ دل پہ تمہارا خیال برسا ہے
روا نہیں ہے زمانے کو شکوہِ ظلمت
کہ نور تیرا بہ حسن و جمال برسا ہے
ملا نہ کوئی ٹھکانہ کہیں بھی ظلمت کو
اِس اہتمام سے اُن کا جمال برسا ہے
خیالِ گنبدِ خضرٰی خدا کی جانب سے
برائے ہمّتِ آشفتہ حال برسا ہے
زمینِ ہجر کو سیراب کر گیا فورًا
جو اشک آنکھ سے وقتِ وصال برسا ہے
بہ افتخار زمانے کے سب حسینوں پر
تِلوں کی شکل میں حُسنِ بلال برسا ہے
گناہ گاروں کو احساسِ حشر تک نہ ہوا
تمہارا فیضِ تبسم کمال برسا ہے