کرتی ہے تسلسل سے اندھیروں کا سفر رات
تب جا کے کہیں تکتی ہے تنویرِ سحر رات
چھا جائے رخِ تازہ سحر پہ بھی اداسی
عشّاق کی آہوں کو چھپائے نہ اگر رات
یہ وقت ہے میلادِ شہِ کون و مکاں کا
چل کفر کے چوراہے سے پل بھر میں اتر رات !
کچھ ایسی محبت کی ضیاء دیجئے مجھ کو
کر پائے نہ تاریک مرے قلب و نظر رات
وہ چاہیں تو ہر دن ہو مرا عید کے جیسا
وہ چاہیں تو معراج کی شب ہو مری ہر رات
بے فیض کریں طولِ شبِ ہجر کا شکوہ
عشّاق تو اِک آہ میں کر جاتے ہیں سر رات
یہ چاند سناتا ہے ترے نعل کے قصّے
یوں کرتا ہے تاروں کی معیّت میں بسر رات
ہمرازِ فدایانِ رخِ ماہِ عرب ہے
رکھتی ہے حسِیں زلفِ معنبر کی خبر رات
دن شارحِ بیدارئِ حضرت ہے تبسم
اور عالمِ خوابیدہِ حضرت کا اثر رات