کیوں پھرتی ہے کھولے ہوئے بالوں کو بھلا شام
مانگا کرے شامِ درِ طیبہ کی دعا شام
ڈوبے ہیں کئی اِس کے تبحُّر میں زمانے
تکتی ہے ترے گیسوئے خمدار کو کیا شام ؟
غم ہائے زمانہ میں تسلّی کا سبب ہے
وہ قافلہِ درد جو کربل سے چلا شام
دل شامِ درِ یار کا عاشق ہے، سو خوش ہے
تو اپنی طبیعت کا بتا، اپنی سنا شام !
آ زائرِ طیبہ کی نگاہوں کا نشہ دیکھ
اے مستئِ چشمان و دلِ میکدہ آشام
ذوقِ دلِ عشّاق کو تسکین بھی دے گی
کھا آئے مدینے کی اگر آب و ہوا شام
آغازِ شبِ ہجر کے ہونے پہ ہو نادم
سن لے جو شبِ ہجر میں عاشق کی صدا شام
آپ اپنے تبسم سے تبسم کو بچا لیں
درپے ہے مرے اے شہِ لَوْلَاکَ لَمَا ! شام