قافلے عالمِ حیرت کے وہاں جاتے ہیں

قافلے عالمِ حیرت کے وہاں جاتے ہیں

جس طرف آپ کے قدموں کے نشاں جاتے ہیں


پوچھئے ہم سے کہاں اشکِ رواں جاتے ہیں

سوئے نعلینِ شہِ کون و مکاں جاتے ہیں


مالکِ کل کی عطاؤں کا اثر ہے ورنہ

قلبِ سائل سے کہاں وہم و گماں جاتے ہیں


حرصِ شہرت میں گِھرے اے دلِ بے فیض ٹھہر !

کوچہِ یار میں بے نام و نشاں جاتے ہیں


پیرِ میخانہِ طیبہ ہو اگر پیرِ نجف

سیر ہو آتے ہیں جو تشنہ لباں جاتے ہیں


عرش کے پار سے آتے ہیں جو نوری دھارے

جانبِ روئے شہِ لالہ رُخاں جاتے ہیں


کیوں نہ اُس در کو پناہ گاہِ تبسم کہئیے

اڑتے پنچھی بھی جہاں لینے اماں جاتے ہیں