اس خوش نصیب شخص کو رب کا سلام ہے
مقصود جس کا مدحتِ خیرالانام ہے
کیسے خیالِ حسنِ نبی میں نہ وہ رہے
حسّان جس کے فکر و نظر کا امام ہے
جنت بھی چشمِ زائرِ طیبہ کو دیکھ کر
بولی تمہارے ذوقِ نظر کو سلام ہے
کیوں نا حصارِ مدحِ پیمبر میں ہی رہیں
دنیا میں مختصر سا ہمارا قیام ہے
معشوق ہوں جو ماہِ عرب کی ادائیں ، پھر
عاشق کی تشنگی کو بھلا کب دوام ہے
اُن کے حضور دل کا دھڑکنا بھی شور ہے
اہلِ ادب سے پوچھو تو یہ بھی حرام ہے
یہ سوچ کر بڑھیں کہ یہ ہے مسکنِ حضور
تاریکیوں کو دل سے اگر کوئی کام ہے
اُس خاندان پر نہ زباں کھولنا کبھی
ہر طفل پیدا ہوتے ہی جس کا امام ہے
خوشبو طوافِ قلبِ تبسم نہ کیوں کرے
مدحِ نبی کی سمت یہ محوِ خرام ہے