دنیا سے دین دین سے دنیا سنوار دے
دونوں جہان مالک و مولا سنوار دے
فرداؤں میں جلیں مرے امروز کے چراغ
انداز میرے فکر و نظر کا سنوار دے
لکھوں میں پھر عمل سے سفرنامہء حیات
خط میرا صاف کر مرا املا سنوار دے
گرد و غبارِ وقت نے پہچان چھین لی
تاریخ کا مری رخِ زیبا سنوار دے
ہر ایک بال میں ہے گرہ سی پڑی ہوئی
کہہ دے ہوا سے زلفِ تمنا سنوار دے
بینائیوں کو سب کی پرو لوں نگاہ میں
سب آئیں مجھ کو دیکھنے ایسا سنوار دے
میں زندگی کو آئینہ خانے میں رکھ سکوں
ہر زاویے سے مجھ کو خدایا سنوار دے
محتاج تیرے عفو و کرم کی ہیں سب رتیں
پت جھڑ سنوار دے مری برکھا سنوار دے
جذبات کے محل میں نہیں تجھ سے مانگتا
میرے ضمیر و ذہن کی کٹیا سنوار دے
قائم یہ سرزمین بھی ہے لا الہ پر
اس کو بھی مثلِ مکہ و بطحا سنوار دے