جب مسافر کے قدم رک جائیں ہمت ٹوٹ جائے
منزل امید پر آکر صدا دیتا ہے کون
کس کاپا کر اذانِ طوفانوں کے رکتے ہیں قدم
ڈْوبتی کشتی کو ساحل سے لگا دیتا ہے کون
جس کے دریا میں سفینوں کی طرح رہتے ہیں ہم
ہاں! اسی نادیده قوت کو خدا کہتے ہیں ہم