جس کی منزل تو نہ ہو وہ راستہ کوئی نہیں
اول و آخر ہے تو تیرے سوا کوئی نہیں
دل ہے تو احساس ہے تو آنکھ تو بینائی تو
تو دکھائی دے رہا ہے دیکھتا کوئی نہیں
تو اجالا ہے میں یہ تو تو ہے بیداری میں خواب
تو حقیقی رب ہے تجھ سا دوسرا کوئی نہیں
دور بھی نزدیک بھی ٹھہراؤ بھی تحریک بھی
نام ہر شے پر لکھا ہے اور پتا کوئی نہیں
رونقِ کون و مکاں تنہائی کا تیری ثبوت
نیتوں تک میں ہے تو تجھ سے چھپا کوئی نہیں
قرب تیرا بادشاہی تیری رحمت دھن ہی دھن
تو ہے کیا سب کچھ ہے مولا میں ہوں کیا کچھ بھی نہیں
سن لیا کرتا ہوں تجھ کو میں سماعت کے بغیر
تیری چپ کے سامنے میری نوا کچھ بھی نہیں