خدایا مجھ کو وہ نورِ نظر دے

خدایا مجھ کو وہ نورِ نظر دے

فضائے تیرگی میں جو سحر دے


کمالِ عجز ہو سوچوں کے اندر

لبِ اظہار کو لعل و گہر دے


نہیں ہوں آشنائے منزلِ عشق

میں اس کو پاسکوں ایسا ہُنر دے


مرے الفاظ معنی کھو چکے ہیں

مجھے پھر سے صدائے معتبر دے


بھنور میں کھو گئی ساری مسافت

مرے مولا مجھے اپنی خبر دے


غروبِ شام کا منظر بنا ہوں

مجھے تابانیٔ شمس و قمر دے


عطا کر علم اپنی معرفت کا

عمل میں فکر میں اخلاص بھر دے


مرا دل نرم کردے میرے مولا

ضمیرِ ذات کو چشمانِ تر دے


اٹھے ہاتھوں میں تو کچھ بھی نہیں ہے

مری توبہ کے لہجے میں اثر دے


ترا قرآں مرے اندر بھی اترے

غذا یہ روح کو تو عمر بھر دے


مرے افکار میں بھی روشنی ہو

مجھے خاکِ درِ خیرالبشر دے


درِ دنیا پہ میں ہوں محوِ حسرت

شعورِ بندگی اے چارہ گر دے


رواں ہیں چار سو دجّالی فتنے

مدینے کی مجھے بھی رہگزر دے


شکیلؔ اب کھو چکا ہے راستوں میں

تو اس کی منزلیں آسان کر دے