کُملائی ہوئی روح کُو یارب گُلِ تر کر
اس جامِ سفالیں کو کبھی ساغرِ زر کر
جب تیرے اشارے سے چٹک جاتے ہیں غنچے
اُمید کی منہ بند کلی پر بھی نظر کر
دل کو ۔۔ جسے خاکستر دِل کہتی ہے دُنیا
انوار کی لَو ڈال کے ۔۔ تابندہ شرر کر
اب میرے لیے تنگ ہے یہ عالم بے رنگ
بوسیدہ ہے یہ قصر ‘ اسے زیر و زبر کر
کب تک ترے بندوں کی غلا می پہ کروں ناز
تاروں کے نشیمن سے بھی اونچا مرا سر کر
گر نخلِ تمنا کو ثمرور نہیں کرنا
افسانہء اکرام بعنوان دِگر کر
اس پر بھی اگر تیرا کرم کچھ نہیں کرتا
گستاخ کلامی سے مری قطع نظر کر
یہ بھی نہیں منظور تو اے مبدء الطاف
احساس مرا چھین ‘ مجھے خاک بسر کر