تیرے آگے مری جھکتی ہوئی پیشانی سے
میری ہر صبح کا آغاز ہوا کرتا ہے
رحمتیں دیتی ہیں آواز گنہ گاروں کو
یہ کرشمہ بھی ترا عفو کیا کرتا ہے
رزق پہنچاتا ہے پتھر میں چھپے کیڑے کو
تو ہی سوکھی ہوئی شاخوں کو ہرا کرتا ہے
زندگی پر کبھی اتراؤں نہ مرنے سے ڈروں
تو ہی پیدا بھی کرے تو ہی فنا کرتا ہے
تیرے الطاف کسی کے لیے مخصوص نہیں
تو ہر اک چاہنے والے کی سنا کرتا ہے
خیر مقدم کیا کرتی ہیں اسی کی راہیں
تیرے کہنے کے مطابق جو چلا کرتا ہے
ہر کوئی تو تری جانب نہیں راغب ہوتا
تو جسے چاہے یہ توفیق عطا کرتا ہے
گیت گاتی ہیں بہاریں تری خلّاقی کے
سینۂ سنگ سے جب پھول کھلا کرتا ہے
بڑا ناداں ہے تجھے دور سمجھنے والا
تو رگِ جاں سے بھی نزدیک رہا کرتا ہے