آگ سی دل میں لگی آنکھ سے چھلکا پانی
کس کا غم ہے کہ ہُوا اپنا کلیجہ پانی
آنسؤوں کی غمِ شبیر میں بدلی صُورت
بن گیا آنکھوں میں طوفان، جو اُمڈ ا پانی
گھاٹ پر آکے بھی عبّاس نے لب تَر نہ کیئے
ہاتھ آیا تو ، مگر کام نہ آیا پانی
تپشِ عشق و وفا جن کے کلیجے پھُونکے
پیاس کیا اُن کی بجھائے گا ، ذرا سا پانی
تجھ پر اللہ کی لعنت ہو یزیدی لشکر
وارثِ کوثر و تسنیم پہ روکا ، پانی
آہ! وہ حضرتِ شبّیر پہ بیدار و ستم
فتنہ کیشوں سے وہ ہر گام پر ایذا "پانی "
بد دُعا دیتے اگر ابنِ علی دریا کو
ڈھونڈتا پھرتا ، مگر ہاتھ نہ آتا پانی
مضطرب ہے کہ شہیدوں کے لبوں تک پہنچے
پہرے دُشمن کے لگے ہوں تو کرے کیا پانی
جس نے پی ہو مئے تسلیم و رِضا روزِ ازل
اُس کی دانست میں کیا چیز ہے دریا، پانی
یہ مسافر کی نگہداشت ، یہ مہمان کی قدر
کربلا میں نہ مِلا شاہ کو دانہ ، پانی
تشنگی دیکھ کے دریا کو اگر جوش آتا
سامنے حضرتِ شبّیر کے بھرتا پانی
بوند پانی کی نہ تھی آلِ محمدؐ کیلئے
اور، پیتی رہی دُنیا لبِ دریا ، پانی
کربلا میں شہِ دیں تک جو پہنچنے پاتا
فخر سے پاؤں زمیں پر کہیں دھرتا پانی
اِس خجالت سے کہ شبیر کو پانی نہ مِلا
ساری دُنیا میں لیے پھرتا ہے دریا ، پانی
کربلا تھی علی اصغر کے لہو سے لرزاں
اِس قدر ظلم کہ سَر سے ہُوا اُونچا ، پانی
پاؤں رکھّے گا زمیں پر نہ کبھی میرا غبار
کُوئے شبّیر میں آخر ہے اِسے جا " پانی "
غرقِ حیرت تھا نصیؔر ! اہلِ ستم کا جمگھٹ
تیغِ اکبر نے وہ میداں میں دکھایا ، پانی