آج دریا دلی تو اپنی دکھا دے ساقی
مے کی میخواروں میں اک نہر بہا دے ساقی
میکدے کی مجھے اب راہ بتادے ساقی
دیر و مسجد کے بکھیڑے سے چھوڑا دے ساقی
ہوش گم ہوں وہ مئے ہوشربا دے ساقی
ماسوا اپنے سبھی دل سے بھلا دے ساقی
پھر وہی قول الست آج سنادے ساقی
ایک پیمانے میں ان سب کو چھکا دے ساقی
یہ بھی مقدور ہے تجھ کو کہ تو اک ساغر میں
جسکو چاہے اسے منصور بنادے ساقی
میں بلا نوش ہوں یوں کب مری سیری ہوگی
جام کو رکھدے ادھر خم کو لنڈھا دے ساقی
روز فردا کا تو اللہ نہ اب ٹالادے
جو پلانا ہے ہمیں آج پلادے ساقی
چشم مخمور سے ہو ایک نظر مجھ پر بھی
اب خدارا مجھے اپنا سا بنا دے ساقی
میرا منہ لائق ساغر جو نہیں ہے نہ سہی
دور ہی سے مجھے چلو میں پلادے ساقی
دین وایمان دل و جان عقل و خرد ہوش حواس
نذر دیتا ہوں وہ مے اب تو پلا دے ساقی
تیرا میخانہ رہے لاکھوں برس تک آباد
آج تو تھوڑی سی ہم کو بھی چکھا دے ساقی
کل جو اک بوند بھی مانگیں تو گنہگار ہیں ہم
آج ہم جتنی پیئیں ہم کو پلادے ساقی
تو تو قادر ہے مری طرح سے مجبور نہیں
جس کو جو چاہے سودم بھر میں بنادے ساقی
مجھ سے کم ظرف کو میخانے میں عزت بخشی
داور حشر تجھے اس کی جزا دے ساقی
ہو کے بیدم بھی تر دم بھروں اور مست رہوں
مے کے بدلے میں اگر زہر پلا دے ساقی