اے دوست چیرہ دستئ دورِ جہاں نہ پوچھ
اِس چرخِ فتنہ ساز کی نیرنگیاں نہ پوچھ
نا مہربانیوں کا سبب مہرباں نہ پوچھ
انسان سے عداوتِ عُمرِ رواں نہ پوچھ
ہر اک نَفَس ہے دردِ فراواں لیے ہُوئے
ہر راگنی ہے اک غمِ پنہاں لیے ہُوئے
اِس پر بھی رہنِ بُغض و عداوت ہے آدمی
صیدِ زبونِ جذبہء نفرت ہے آدمی
مصروفِ حَرب و ضرب و ہلاکت ہے آدمی
خود آدمی کے خون سے لَت پَت ہے آدمی
چہرے پہ اپنے خونِ رفیقاں مَلے ہوئے
خُوئے درندگی میں ہیں انساں ڈھلے ہُوئے
سمجھائیے کسے کہ عداوت حرام ہے
رسمِ نفاق و خُوئے کدُورت حرام ہے
اَخلاق و آشتی سے بغاوت حرام ہے
فتنہ ہے کفر اور شرارت حرام ہے
اہلِ ستم کو قہرِ خدا کی وعید ہے
اخیار پر جو ظلم کرے وہ یزید ہے
جس کو فنا نہیں وہ محبّت ہے دوستو
دل کو جو گھن لگائے وہ نفرت ہے دوستو
غیریّت اک تسلسلِ وحشت ہے دوستو
انساں وہ ہے جو باعثِ راحت ہے دوستو
ہر دل ہے تابشِ صَمَدِیَّت لیے ہُوئے
نُورِ خدا ہے مِشعلِ وحدت لیے ہُوئے
البتّہ حاکمانِ جفا جُو کے رُو برو
قائم رکھ اپنی ہمّت و غیرت کی آبرو
رُعبِ شہنشہی سے کبھی سَر جُھکا نہ تُو
باطل کا سامنا ہو تو کر حق کی گُفتگو
دامانِ خِسروانِ حق آزار پھاڑ دے
جھنڈے زمیں پہ اپنی شجاعت کے گاڑ دے
عرصہ ہُوا، چلی تھی مخالف کبھی ہَوا
اورنگِ سلطنت پہ تھا اک بانیء جفا
اُس وقت ایک مردِ حق آرا و حق نوا
آیا تھا شیرِ نَر کی طرح سُوئے کربلا
جو مصؐطفٰے کا نُور تھا زھرا کا چین تھا
اُس با خدا کا نامِ گرامی حسین تھا
ناموسِ لوح تاجِ امامت چراغِ دِیں
نُورِ ازل فروغِ ابد مطلعِ یقیں
تنویرِ عرش حُسنِ فلک زینتِ زمیں
باطل ستیز حق نگر و صدق آفریں
مصباحِ لُطف صبحِ کرم عزّتِ وُجُود
رمزِ نماز سرِّ وفا سطوتِ سُجُود
جانِ کرم نگارِ حرم قبلہء اُمم
میرِ حیات مہرِ بقا قاسِم نِعَم
سامانِ رُشد شاہدِ حق احسنُ الشَّیمَ
قندیلِ فیض شمعِ سخن خِسروِ قلم
دستِ علی حسامِ حسن نُورِ مشرقین
تصدیق و اعتبارِ امین و زماں حسین
اللہ کا مُطیع محمدؐ کا لاڈلا
زھرا کا عزم زینب و صغرٰی کا آسرا
واری تھی جس پہ بالی سکینہ وہ باوفا
حیدر کو جس کی قوّتِ بازو پہ ناز تھا
آواز آرہی ہے یہ رن میں کچھار سے
ٹپکے گا آج خون رگِ اقتدار سے
ہیبت سے اُس کی پِیرِ فلک کو نہیں قرار
لرزے میں ہے زمین تو سکتے میں روزگار
ہر سانس کو یہ دُھن ہے کہ ڈھونڈے رہِ فرار
یہ حال دشمنوں کے ہے سَر پر قضا سوار
ہلچل سی اک بپا ہے دلِ جبرئیل میں
شعلے بھڑک رہے ہیں دیارِ خلیلؑ میں
ہر اک طرف خروش ہے فریاد و آہ کا
جو سانس آرہا ہے وہ کانٹا ہے راہ کا
سِکّہ جما ہُوا ہے حُسینی سپاہ کا
کُنبہ ہے یہ جنابِ رسالتؐ پناہ کا
حاضر عَدُو ہے نقدِ دل و جاں لیے ہُوئے
سرمایہء حیاتِ پریشاں لیے ہُوئے
یہ بے پناہ دُھوپ کی شدّت یہ تشنگی
یہ غم یہ اضطراب یہ صدمے یہ بے کسی
یہ گیسوئے حیاتِ گُریزاں کی برہمی
اوراِس کے باوجود یہ جوشِ دلاوری
دل ہے اُداس ہاتھ میں پھر بھی حُسام ہے
اے فاطمہ کے لال یہ تیرا ہی کام ہے
پھُولا پھَلا چمن جو ہُوا سامنے تباہ
وہ بے کسی کا وقت بھی کیا تھا خدا گواہ
زینب وفورِ غم سے ہُوئی غرقِ رنج و آہ
تڑپا جو دل تو سُوئے مدینہ اُٹھی نگاہ
بولی کہ اے محمدِؐ ذی جاہ المدد
سب کی پناہ میرے شہنشاہ المدد
غش میں پڑے ہیں عابدِ بیمار ہائے ہائے
چہرے پہ بے کسی ہے نمودار ہائے ہائے
تپتی زمین پر ہیں علمدار ہائے ہائے
نرغےمیں ہے بتول کا دلدار ہائے ہائے
فریاد کس سے ہو ستمِ روزگار کی
دوشِ خزاں پہ لاش ہے فصلِ بہار کی
اے وائے برفسردگیء باغِ بُو تراب
کانٹوں پہ ہیں گُلاب تو نیزوں پر آفتاب
اِن کی طرح سے کوئی نہ ہو خانماں خراب
بچّے بھی سو رہے ہیں جواں بھی ہیں محوِ خواب
زھرا کے گُل عذار پہ چادر ہے دُھول کی
لاشیں پڑی ہیں خاک پر آلِ رسولؐ کی
امّاں کو میرے غم کی خبر کیوں نہیں ہُوئی
ہم بے کسوں کی سمت نظر کیوں نہیں ہُوئی
فریاد میری زُود اثر کیوں نہیں ہُوئی
میری شبِ الم کی سحر کیوں نہیں ہُوئی
دُشمن کی دسترس میں تِرا نُورِعین ہے
امّاں یہ کوئی اور نہیں ہے حسین ہے
پیغمبری کو بازوئے حیدر پہ ناز ہے
حیدر کو خونِ سبطِ پیمبرؐ پہ ناز ہے
زینب کو جراتِ دلِ اکبر پہ ناز ہے
اکبر کو بے زبانیء اصغر پہ ناز ہے
جبریلؑ ہے نثار نگارِ بتول پر
نازاں ہے چرخ جراتِ آلِ رسولؐ پر
وقتِ سخن وہ ہیبتِ یزداں کلام میں
پڑجائے جس سے لرزہ دلِ خاص و عام میں
اللہ رے یہ صفات کے جوہر امام میں
سچ ہے کہ انبیاؑ کا چلن تھا خِرام میں
دل میں کماں کا لوچ تھا خَم ذُوالفِقار کا
شبیر شاہکار تھے پروردگار کا
خود دار ہے جری ہے شہِ کائنات ہے
اُس کا وجودِ پاک جمالِ حیات ہے
شہ پارہء صفات ہے شہ کارِ ذات ہے
اُس کا قدم زمین پہ مُہرِ ثبات ہے
سَر اُس کا پائے حشمتِ باطل پہ خَم نہیں
عزمِ حسین عزمِ رسالت سے کم نہیں
اے دُشمنانِ دین وہ لعینانِ بد خِصال
یہ اخترانِ بُرجِ نُبّوت ہیں لازوال
اِن کو مٹا سکے یہ کسی کی نہیں مجال
کچھ شرم ہو تو ڈُوب مَرو بندگانِ مال
نُورِ اَحَد سے دل کو اُجالے ہُوئے ہیں یہ
بنتِ نبیؐ کی گود کے پالے ہُوئے ہیں یہ