دل جب سے ہے خاکِ رہ قنبر کے برابر
میں خود کو سمجھتا ہوں سکندر کے برابر
سر نقشِ کفِ پائے ابُوذرؔ پہ ہے جب سے
دنیا ہے مرے پاؤں کی ٹھوکر کے برابر
مشکل ہے، کوئی رُتبہء حیدرؑ کو سمجھ لے
ممکن نہیں قطرہ ہو سمندر کے برابر
صد شکر مری تشنہ لبی یاد ہے جس کو
بیٹھا ہے وہی ساقئ کوثر کے برابر
نِسبت نہ دو خورشید کو رخسارِ علیؑ سے
کنکر کو نہ لاؤ، رُخِ گوہر کے برابر
شبّیرؑ کے ہاتھوں پہ تو اصغرؑ تھا وہ لیکن
نِکلا سرِ میداں علی اکبرؑ کے برابر
محسؔن کو نہیں خوفِ ”نکیرین “ لَحد میں
کون آئے گا مولاؑ، ترے نوکر کے برابر